یہ 6 نومبر 2024 کو انگریزی میں شائع ہونے 'On the election of Donald Trump' والے اس تناظر کا اردو ترجمہ ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا انتخاب امریکی جمہوریت کے طویل بحران کا ایک اہم واقعہ ہے اسکے تباہ کن اثرات پوری دنیا میں محسوس کیے جائیں گے۔ ایک فاشسٹ ڈیماگوگ ہے جس نے جنوری 2021 میں آخری صدارتی انتخابات کو پرتشدد طریقے سے الٹانے کی کوشش کی تھی جس نے اب فیصلہ کن طور پر 2024 کے انتخابات میں الیکٹورل اور مقبول ووٹوں کی اکثریت حاصل کر کے کامیابی حاصل کی ہے۔ وہ 70 دنوں کے عرصے تک وائٹ ہاؤس میں دوبارہ تعینات ہو جائیں گے۔
ٹرمپ کی سیاسی فتح ڈیموکریٹک پارٹی کے دیوالیہ پن کی مرہون منت ہے جو خوشحال درمیانے طبقے کی شناخت کی سیاست سے پیوستہ ہے جو محنت کشوں کے معیار زندگی پر مہنگائی کے تباہ کن اثرات سے متکبرانہ بے حسں ہے اور یوکرین میں جنگ اور غزہ میں نسل کشی کی بے لگام حمایت نے اسکی انتخابی شکست کے لیے زمین ہموار کر دی۔
سرمایہ دارانہ پریس کے بڑے ستون پہلے ہی ٹرمپ کی جیت کے سنگین سیاسی مضمرات کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ' نیویارک ٹائمز لکھتا ہے مسٹر 'ٹرمپ کا انتخاب ایک سنگین خطرہ ہے لیکن وہ امریکی جمہوریت کی طویل مدتی قسمت کا تعین نہیں کریں گے۔' ٹائمز نے اپنے قارئین کو یقین دلایا ہے کہ ٹرمپ ایک غیر موثر صدر ہوں گے کیونکہ انہیں آئین نے دوسری مدت کے حصول سے روک دیا ہے۔
یہ خواہش پر مبنی سوچ ہے۔ ٹرمپ نے کھلے عام اعلان کیا کہ یہ آخری الیکشن ہوں گے اور ان کے حامیوں کو دوبارہ ووٹ نہیں دینا پڑے گا۔ سیاسی حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ کا انتخاب سماجی ردِ انقلاب کی ایک بے مثال لہر کا مرحلہ طے کر رہی ہے جسے وہ ایک فاشسٹ ڈیکٹیٹر کے طور پر پرتشدد طریقوں کے ساتھ نافذ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ٹرمپ نے 'ڈکٹیٹر' بننے اور 'اندرونی دشمن' کو کچلنے کے لیے فوج تعینات کرنے کا عہد کیا ہے۔ وہ 11 ملین غیر دستاویزی تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے یہ ایک ایسا آپریشن ہو گا جس میں بڑے امریکی شہروں کو مارشل لاء کی تحویل میں دینا ہوگا۔ اس نے انکم ٹیکس ختم کرنے، امیروں کے لیے ٹیکس کم کرنے کے ساتھ کارپوریٹ ریگولیشنز کو ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ ان پالیسیوں کے محنت کش طبقے پر جو تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے جو ایک غیرمعمولی عمل ہو گا۔
وہ اتفاقی سیاسی شخصیت نہیں ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ یہ عمل کیسے پورا ہو اور یہ ڈیموکریٹک پارٹی کی سیاسی ملی بھگت کو کم کرنے کے لیے نہیں ہے جبک دوسری جانب ٹرمپ انتظامیہ کا اقتدار میں آنا ملک میں موجود حقیقی سماجی تعلقات کی عکاسی کرنے کے لیے امریکی سیاسی نظام کی پرتشدد تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ صرف ایک مجرم فرد کے طور پر نہیں بلکہ ایک طاقتور سرمایہ دارانہ اشرافیہ طبقہ کے نمائندے کے طور پر اپنا اظہار کرتے ہیں جس نے گزشتہ تین سے چار دہائیوں میں تشکیل پا کر ایک واضع شکل اختیار کر لی ہے جیسا کہ ایلون مسک، جیف بیزوس، پیٹر تھیل اور لیری ایلیسن کی قیادت میں میگا کروڑ پتی اور ارب پتی افراد ہیں جو ٹرمپ کو امریکی معاشرے کی رجعتی تنظیم نو کو مسلط کرتے ہوئے اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ وہ 20 جنوری کے افتتاح تک کے وقت کو جابرانہ اور سماجی طور پر رجعتی اقدامات کی تیاری کے لیے استعمال کریں گے جو ٹرمپ کے ایک بار پھر وائٹ ہاؤس میں داخل ہوتے ہی سامنے آئیں گے۔
وہ سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے اندر آبادی کی اکثریت کے مفادات کے کسی بھی قسم کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھانے کے قابل تھا۔ کملا ہیرس کی انتخابی مہم محنت کش طبقے کے لیے کسی بھی قسم کی سماجی اپیل کرنے کے خلاف تھی۔ انہوں نے اپنی مہم انتہائی خوشحال طبقے کے ووٹرز تک پہنچائی اور لز چینی جیسے نفرت انگیز جنگجوؤں کو فروغ دیا ساتھ ہی ریپبلکنز کو کابینہ میں جگہ دینے کا وعدہ کیا۔
ہیریس، براک اوباما اور دیگر ڈیموکریٹک نمایدوں نے اپنی کمپین کے دوروں کے دوران ووٹروں سے جاحارانہ انداز روا رکھ اور انہیں حراساں کرتے ہوئے کہا کہ ہیریس کو ووٹ دینے سے انکار بدتمیزی یا نسل پرستی کا ثبوت ہوگا۔ انہوں نے نسلی اور جنسی شناخت کی مسلسل اپیلوں کو بیرون ملک جنگ کی مکمل حمایت کے ساتھ جوڑ دیا۔ ڈیموکریٹس نے غزہ پر اسرائیل کے نسل کشی کے حملے کی مزید حمایت کا وعدہ کیا اور یوکرین میں روس کے خلاف امریکہ-نیٹو کی جنگ میں اضافے کا مطالبہ کیا ۔
ڈیموکریٹس نے ریاستہائے متحدہ میں بگڑتے ہوئے سماجی بحران سے نمٹنے کے لیے کچھ بھی تجویز نہیں پیش نہں کی اس نے ملک کی بحران زد آبادی کے سامنے اسے 'صحیح راستے پر' گامزن کے طور پر پیش کیا جو تقریباً متفقہ طور پر اس کے برعکس سمجھتی ہے۔ برنی سینڈرز اور الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز جیسی شخصیات نے یہ مضحکہ خیز جھوٹ پیش کیا کہ بائیڈن- ہیرس انتظامیہ نے کام کرنے والے لوگوں کے لیے حالات بہتر کیے ہیں اور یہ کہ ہیرس 'ارب پتی طبقے' کے تسلط کو چیلنج کریں گی۔ ہلیری کلنٹن کے 2016 کے دعوے کی نقل کرتے ہوئے کہ محنت کش طبقہ 'افسوسناک چیزوں کی ٹوکری' پر مشتمل ہے بائیڈن نے انتخابات کے آخری دنوں میں ٹرمپ کے حامیوں کو 'کوڑا دان ' قرار دیا۔
ٹرمپ کو ڈالے جانے والے کُل ووٹوں کی تعداد ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اس میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ 2020 میں اسے پڑنے والے بظاہر ووٹوں میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن ڈیموکریٹس کی حمایت میں ایک حیرت انگیز تباہی دیکھنیکو ملی ہے ہیریس نے 2020 میں جوبائیڈن کے مقابلے میں 10 سے 15 ملین کم ووٹ حاصل کیے ہیں۔
ہیریس نے ملک کے ہر ایک حصے کے حلقوں میں بائیڈن کے مقابلے میں کم کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی شناخت کی اپیل کی بنیاد پر مختلف نسلی اور جنسی گروہوں کو ہیریس کی مہم کے ساتھ جوڑنے کی کوششیں بالکل ناکامی سے دوچار رہی۔ ٹرمپ کے ووٹوں میں سب سے زیادہ اضافہ کاؤنٹیوں میں دیکھا جہاں 50 فیصد سے زیادہ آبادی غیر سفید فام ہے اور ایگزٹ پول کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ہیریس نے قومی سطح پر لاطینی آبادی کے ووٹرز میں 54 فیصد سے گر کر 44 فیصد حاصل کیے ہیں یہ 2020 کے الیکشن کے بلکل برعکس ہے جب بائیڈن نے 59 سے 39 فیصد سے ٹرمپ کو شکست دی تھی۔
اسی طرح جس فرق سے 2020 میں ڈیموکریٹس نے نوجوان ووٹروں کے ووٹ حاصل کیے تھے اس میں بھی کافی کمی آئی ہے کیونکہ لاتعداد نوجوانوں نے غزہ میں نسل کشی میں ملوث امیدوار کو ووٹ دینے سے انکار کر دیا۔ بائیڈن جس نے نوجوانوں میں 65 سے 31 فیصد کے فرق سے جیتا تھا ہیریس نے صرف 56-41 فیصد حاصل کیے۔ ٹرمپ نے پہلی بار نئے ووٹروں میں اکثریت حاصل کی جو اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ ڈیموکریٹس خوشحال درمیانے طبقے سے آگے ووٹرز کو متحرک کرنے میں ناکام رہے۔
درحقیقت ہیرس صرف امیروں میں ہی بہتر ووٹ حاصل کر سکی یعنی کہ 200,000 ڈالر یا اس سے زیادہ کی آمدنی والے ووٹروں میں اس نے 54 سے 44 فیصد کے فرق سے جیت لیا، 2020 میں اس آمدنی والی اینڈکس میں ٹرمپ کی ایک تنگ جیت کو تبدیل کر دیا۔ ٹرمپ نے 2020 میں 100,000 اور 200,000 ڈالر کے درمیان آمدنی والے ووٹرز کو 58 سے 41 فیصد کے فرق سے جیتا تھا لیکن ہیرس 53 سے 45 فیصد سے جیت گی۔ ڈیموکریٹس نے بیک وقت کام کرنے والے لوگوں کی حمایت میں کمی دیکھی ہے ہیریس نے 30,000 اور 100,000 ڈالر کے درمیان کمانے والوں کو کھو دیا، جو کہ آبادی کا ایک وسیع حصہ ہے جسے بائیڈن نے 2020 میں تقریباً 57-43 فیصد فرق سے جیتا تھا۔
رائے دہندگان گہرے سماجی غصے سے متاثر تھے۔ 43 فیصد ووٹروں میں سے جنہوں نے کہا کہ وہ 'ملک میں آج جس طرح سے حالات چل رہے ہیں سے 'مطمئن' نہیں ہیں، ٹرمپ نے 54 سے 44 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں۔ ان 29 فیصد میں سے جنہوں نے جواب دیا کہ وہ 'ناراض' ہیں ٹرمپ نے 71 سے 27 فیصد جیتے۔ ہیرس نے آبادی کے ان کم تناسب لوگوں میں سے 89 سے 10 فیصد جیتے جو آج معاشی اور سماجی حالات کے بارے میں 'پرجوش' ہیں۔ آبادی کا کل فیصد جنہوں نے کہا کہ ان کی مالی حالت آج 'خراب' ہیں بمقابلہ چار سال پہلے دوگنا سے بھی زیادہ ہو کر 45 فیصد ہو گئی ہے ٹرمپ نے ان ووٹروں کو 80 سے 17 فیصد کے فرق سے جیتا ہے۔
ٹرمپ اور ریپبلکن اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ ایک سماجی بارود کے ڈھیر پر بیٹھ کر حکمرانی کر رہے ہیں اور یہ کہ وہ دائیں بازو کی پالیسیوں پر عمل درآمد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو سماجی غصے کو مزید گہرا کرے گی۔ ان کی حکمت عملی بڑے پیمانے پر پولیس ریاستی جبر کو ایک فاشسٹ مہم کے ساتھ جوڑ کر تارکین وطن کو تمام سماجی برائیوں کے لیے قربانی کا بکرا بنانا ہے۔ اگرچہ ایگزٹ پولنگ یہ تجویز نہیں کرتی ہے کہ تارکین وطن پر ٹرمپ کے گھناؤنے اور غلیظ حملوں سے ووٹرز قائل ہوئے اگرچہ انکی بڑی اکثریت کا کہنا اور ماننا ہے کہ تارکین وطن کو بڑے پیمانے پر ملک بدری کا سامنا کرنے کے بجائے شہریت کے راستے کے مستحق ہیں لیکن یہ مرحلہ تارکین وطن مزدوروں پر بڑے اور پرتشدد حملے کے لیے تیار ہے۔ اس پیمانے پر جو اس کی پہلی انتظامیہ کے اقدامات بھی انہیں بچوں کے کھیل کی طرح نظر ائیں گے۔
اگر ٹرمپ کے جنگ کی مخالفت کرنے کا دعوی جنگ کی حامی ڈیموکریٹک پارٹی کے ووٹوں سے محروم کر سکتا ہے تو ٹرمپ خود ایک بے رحم سامراجی سیاست دان ہیں جو چین، ایران اور شمالی کوریا کے ساتھ بڑھتے ہوئے تصادم کی وکالت کرتا ہے۔
ٹرمپ کی انتخابی فتح پر ڈیموکریٹس کا ردعمل سمجھوتہ اور اتحاد کی تلاش میں ہوگا جو بدھ کی سہ پہر ہیریس کے سر تسلیم خم کرنے والے بیان میں پہلے ہی واضح ہے۔ اس نے آنے والی ٹرمپ حکومت کے آمرانہ کردار کے بارے میں کوئی انتباہ جاری نہیں کیا اور اقتدار کی پرامن منتقلی کے تعاون کرنے کا عہد کیا۔ ڈیموکریٹس اور بھی زیادہ دائیں طرف مڑے گے اور ساتھ ہی ریپبلکنز کے ساتھ اپنی مرکزی ترجیح یعنی کہ جنگ میں اضافہ پر ایک معاہدہ کرنے کی کوشش کریں گے۔
ٹرمپ کے سیاسی اور سماجی پروگرام کا رجعتی کردار اور بھی زیادہ واضح ہوتا جائے گا۔ جیسا کہ حکمران طبقہ ریاست کی تشکیل نو کرنا چاہتا ہے، طبقاتی خطوط پر سیاست کی تنظیم نو ہونی چاہیے۔ جیسا کہ ڈبلیو ایس ڈبلیو ایس انٹرنیشنل ایڈیٹوریل بورڈ کے چیئرمین ڈیوڈ نارتھ نے لکھا، ٹرمپ کا انتخاب 'ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے محنت کش طبقے کی جانب کسی بھی پروگرام اور رجحان کی طویل مدتی اور انتہائی دانستہ تردید کا تباہ کن نتیجہ ہے...
ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں نئے مارکسزم مخالف کمیونزم کی دیرینہ دشمنی کی روایت کے ساتھ ضم ہو گیا ہے۔ بائیں بازو کی سیاست جس کا تعلق محنت کش طبقے کی سرگرمی سے جڑی ہوئی ہے غائب ہو چکی ہے۔ شناخت سے متعلق شکایات نے محنت کش طبقے کی قیمت پر معاشرے کے ایک چھوٹے سے طبقے میں دولت کے بڑے پیمانے پر ارتکاز کے ساتھ کسی بھی سنگین خدشات کو جنم دیا ہے۔
وہ لوگ جنہوں نے دائیں بازو کی سیاست کی اس شکل کو فروغ دیا ہے جسے ڈیموکریٹک پارٹی نے آگے بڑھایا ہے اب انتخابات کے تمام ردعمل میں سب سے زیادہ دیوالیہ ہونے کا سہارا آبادی کو مورد الزام ٹھہرا کر لیتے ہیں۔
درحقیقت گزشتہ سال غزہ میں نسل کشی کے خلاف بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں سے لے کر کارپوریٹ ٹریڈ یونین کے کنٹرول سے آزاد ہونے کی کوشش کرنے والے مزدوروں کی ہڑتال کی کارروائیوں میں مسلسل اضافے تک، سیاسی اور سماجی مخالفت میں دھماکہ خیز اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ بے پناہ سماجی جدوجہد افق پر ہے۔
ان جدوجہدوں کی سیاسی قیادت اور رہنمائی اس تفہیم سے کی جانی چاہیے کہ فاشزم کو صرف محنت کش طبقے کی ایک آزاد تحریک کی بڑھوتی کے ذریعے ہی روکا جا سکتا ہے دولت مند اشرافیہ کا یہ سیاسی ردعمل سرمایہ دارانہ نظام کی پیدوار ہے۔ محنت کش طبقے پر مبنی اور بین الاقوامی حکمت عملی کے ذریعے متحرک حقیقی سوشلسٹ سیاست کا 'ایک نیا جنم' ہونا چاہیے۔
سوشلسٹ ایکویلیٹی پارٹی جوزف کشور اور جیری وائٹ کی اپنی صدارتی انتخابی مہم کے ذریعے محنت کش طبقے کو جنگ، عدم مساوات اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک بین الاقوامی سوشلسٹ پروگرام پر متحرک کرنے کے لیے نکلی۔ یہ پروگرام اب اس سے بھی زیادہ فوری طور پر تیز کرنے کا متقاضی ہے۔ آنے والے دور میں سوشلسٹ ایکویلیٹی پارٹی اور چوتھی انٹرنیشنل کی انٹرنیشنل کمیٹی جنگ، آمریت اور عدم مساوات کے خلاف محنت کشوں اور نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تحریک کی قیادت حاصل کرنے اور معاشرے کی سوشلسٹ تبدیلی کے لیے جدوجہد کرے گی۔